11/6/2018         ویزیٹ:2233       کا کوڈ:۹۳۷۰۰۰          ارسال این مطلب به دیگران

معصومین(ع) ارشیو » معصومین(ع) ارشیو
  ،   پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے پہلے وصیت

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رحلت سے پہلے وصیت
حدیث ثقلین - دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قران اور دوسری میری اہلبیتؑ - فرمان نبوی ص

احادیث

۔ زید بن ارقم کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے مکہ و مدینہ کے درمیان خم نامی مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد و ثنائے الہی کے بعد وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! میں بھی ایک بشر ہوں اور قریب ہے کہ میرے پاس داعی الہی آجائے اور میں اس کی آواز پر لبیک کہتا ہوا چلا جاؤں تو آگاہ رہنا کہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا جس میں نور اور ہدایت ہے اسے پکڑے رہو اور اس سے وابستہ رہو ۔ یہ کہہ کر اس کے بارے میں ترغیب و تنبیہ فرمائی ۔ اس کے بعد فرمایا کہ اور ایک میرے اہلبیتؑ ہیں جن کے بارے میں تمھیں خدا کو یاد دلارہاہوں اور اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا۔ ۔صحیح مسلم 4 / 1873 ۔ 2408 ، سنن دارمی 2/ 889 / 3198 ، مسند ابن حنبل 7/ 75 / 19285 ، سنن کبریٰ 10 / 194 / 20335 ، تہذیب تاریخ دمشق 5 ص 439 فرائد السمطین 2 ص 234 / 513 ۔

166۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان وہ چیزیں چھوڑے جارہاہوں جن سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں ایک دوسرے سے بزرگتر ہے اور وہ کتاب خدا ہے جو ایک ریسمان ہدایت ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے اور ایک میری عترت اور میرے اہلبیتؑ ہیں اور یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہونگے جب تک میرے پاس حوض کوثر پر وارد نہ ہوجائیں ۔ دیکھو اس کا خیال رکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ ۔سنن ترمذی 5 ص 663 / 3788 از زید بن ارقم ۔

167۔ زید بن ارقم ! جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) حجتۃ الوداع سے واپسی پر مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپ نے درختوں کے نیچے زمین صاف کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا کہ گویا میں داعی الہی کو لبیک کہنے جارہاہوں لہذا یاد رکھنا کہ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں جن میں ایک دوسرے سے بڑی ہے، کتا ب خدا اور میری عترت لہذا یہ خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوجائیں اور یہ کہہ کر فرمایا کہ اللہ میرا مولا ہے اور میں تما م مومنین کا مولی ٰ ہوں اور پھر علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علیؑ بھی مولاہے، خدا اسے دوست رکھنا جو اس سے دوستی رکھے اور اس اپنا دشمن قرا ر دیدینا جو اس سے دشمنی کرے۔ ۔مستدرک 3 ص 118 / 4576 ، خصائص نسائی 150 / 79 ، کمال الدین 234 / 250 ، الغدیر 1 ص 30 ، 34 ، 302۔

168۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو حج کے موقع پر روز عرفہ یہ خطبہ ارشاد فرماتے دیکھاہے کہ ایہا الناس ! ---میں تم میں انھیں چھوڑے جارہاہوں جن سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ۔ کتاب خدا اور میرے عترت و اہلبیتؑ ۔ ۔ سنن ترمذی 5 ص 662 / 3786 ۔

169 ۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ۔ ایہا الناس میں آگے آگے جارہاہوں اور تم سب کو میرے پاس حوض کوثر پر آناہے جہاں میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو۔ ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سراپروردگار کے ہاتھوں میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے لہذا اس سے متمسک رہنا اور ہرگز نہ گمراہ ہونا اور نہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا کرنا ۔ تاریخ بغداد 8 ص 442 از حذیفہ بن اسید۔

170۔ حذیفہ بن اسید الغفار ی ! جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) حجتۃ الوداع سے فارغ ہوکر چلے تو آپ نے اصحاب کو منع کیا کہ درختوں کے نیچے پناہ نہ لیں اور اس جگہ کو صاف کراکے آپ نے نماز ادا فرمائی اور پھر کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ایہا الناس ! مجھے خدا ئے لطیف و خیبر نے خبردی ہے کہ ہر نبی کی زندگی اس سے پہلے والے سے نصف رہی ہے لہذا قریب ہے کہ میں بلالیا جاؤں اور چلاجاؤں اور مجھ سے بھی سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تو بتاؤ کہ تم کیا کہنے والے ہو؟ لوگوں نے عرض کی کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے تبلیغ فرمائی اور اس راہ میں زحمت گوارا فرمائی اور ہمیں نصیحت فرمائی ۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔ فرمایا کیا اس بات کی گواہی نہ دوگے کہ خدا وحدہ لا شریک ہے اور محمدؐ اس کے بندہ اور رسول ہیں ؟ اور جنت و جہنم برحق ہیں اور موت بھی برحق ہے او ر موت کے بعد کی زندگی بھی برحق ہے اور بلاشبہ قیامت آنے والی ہے اور خدا لوگوں کو قبروں سے نکالنے والاہے؟ سب نے عرض کی بیشک ہم گواہی دیتے ہیں ! فرمایا خدا یا تو بھی گواہ رہنا ۔ اس کے بعد فرمایا کہ لوگو ! خدا میرا مولاہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے نفوس سے اولیٰ ہوں اور جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علیؑ بھی مولا ہے۔ خدایا جو اس سے محبت کرے اس سے محبت کرنا اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کرنا ۔ پھر فرمایا ایہا الناس ! میں آگے آگے جارہاہوں اور تم سب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو۔و ہ حوض جس کی وسعت بصرہ اور صنعاء کی مسافت سے زیادہ ہے اور وہاں ستاروں کے عدد کے برابر چاندی کے پیالے رکھے ہوئے ہیں اور میں تمھارے والد ہونے کے بعد تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا کہ تم نے میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ۔ ان میں ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سراخداکے ہاتھوں میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔ اس سے وابستہ رہنا کہ گمراہ نہ ہو اور اس میں تبدیلی نہ کرنا ۔ دوسرا ثقل میری عترت اور میری اہلبیتؑ ہیں ۔ خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبردی ہے کہ ان کا سلسلہ ہرگز ختم نہ ہوگا جب تک میرے پاس حوض کوثر پر نہ وارد ہوجائیں ۔ المعجم الکبیر 3 ص 180/ 352۔

171 ۔ معروف بن خربوذ نے ابوالطفیل عامر بن واثلہ کے حوالہ سے حذیفہ بن اسید الغفاری سے نقل کیا ہے کہ جب رسولاکرم حجتۃ الوداع سے واپس ہوئے تم ہم لوگ آپ ہمراہ تھے۔ جحفہ پہنچ کر آپ نے اصحاب کو قیام کا حکم دیا اور سب اونٹوں سے اتر آئے پھر نماز کی اذان ہوئی اور آپ نے اصحاب کے ساتھ دو رکعت نماز ۔ ظہر قصر ۔ ادا فرمائی ۔ اس کے بعد ان کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ مجھے خدائے لطیف و خبیر نے خبردی ہے کہ مجھے بھی مرنا ہے اور تم سب کو مرناہے اور گویا کہ میں اب داعی الہی کو لبیک کہنے والا ہوں اور مجھ سے میری رسالت کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا اور کتاب خدااور حجت الہی کو چھوڑے جارہاہوں اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تو بتاؤ کہ تم لوگ پروردگار کی بارگاہ میں کیا کہوگے ؟ لوگوں نے عرض کی کہ ہم آپ کی تبلیغ ، کوشش اور نصیحت کی گواہی دیں گے خدا آپ کو جزائے خیر دے۔ فرمایا کیا توحید الہی ، میری رسالت ، جنّت و جہنم اور حشر و نشر کے برحق ہونے کی گواہی نہ دوگے؟ عرض کی بیشک گواہی دیں گے ، فرمایا خدا یا تو بھی ان کے بیان پرگواہ رہنا۔

اچھا اب میں تمھیں گواہ بناتاہوں کہ میں اس امر کا گواہ ہوں کہ خدامیرا مولا ہے اور میں ہر مسلمان کا مولا ہوں اور مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہوں کیا تم لوگ بھی اس کا اقرار کرتے ہو اور اس کی گواہی دیتے ہو؟
سب نے عرض کی ۔ بیشک ہم گواہی دیتے ہیں۔ فرمایا تو آگاہ ہوجاؤ کہ جس کا میں مولا ہوں ۔ اس کا یہ علیؑ بھی مولاہے۔ یہ کہہ کر علیؑ کو اس قدر بلند کیا کہ سفیدی بغل نمایان ہوگئی ۔ اور فرمایا خدایا اس سے محبت کرنا جو اس سے محبت کرے اور اس سے عداوت رکھنا جو اس سے دشمنی کرے۔ اس کی مدد کرنا جو اس کی مدد کریاور اسے چھوڑ دینا جو اس سے الگ ہوجائے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ میں تم سے آگے آگے جارہاہوں اور تم میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو۔ یہی کل میرا حوض ہوگا اور اس کی وسعت بصرہ سے صنعاء کے برابر ہوگی جس پرستاروں کے برابر چاندی کے پیالے رکھے ہوں گے اور میں تم سے اس کے بارے میں سوال کروں گا جس کا آج گواہ بنارہاہوں اور پوچھوں گا کہ تم نے میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ لہذا خبردار اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے اور میرے پاس کس طرح حاضر ہوگے۔ لوگوں نے عرض کی کہ حضور یہ ثقلین کیا ہیں ؟ فرمایا ثقل اکبر کتاب خدا ہے جو ایک ریسمان ہدایت ہے جس کا ایک سرکار تمھارے ہاتھوں میں ہے اور ایک پروردگار کے ہاتھوں میں ہے اس میں تمام ماضی اور قیامت تک کے مستقبل کا سارا علم جود ہے۔ اور دوسرا ثقل قرآن کا حلیف یعنی علیؑ بن ابی طالبؑ اور ان کی اولاد ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوجائیں۔
معروف بن خَرَّبوز کہتے ہیں کہ میں نے اس کلام کو امام ابوجعفرؑ کے سامنے پیش کیا تو فرمایا کہ ابوالطفیل نے سچ کہاہے ۔ اس حدیث کو میں نے اسی طرح کتاب علیؑ میں پایاہے اور ہم اسے پہچانتے ہیں۔ ۔خصال ص 65 / 98۔

172۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ! میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، ایک کتاب خدا ہے اور ایک میری عترت اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ۔ مجمع الزوائد 9 ص 256 / 1458 ، کمال الدین ص 235 / 47 از ابوہریرہ۔ اس روایت میں کتاب اللہ کے ساتھ نسبتی کے بجائے سنتی ہے۔

173۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ! میں نے تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑ دیا ہے جن میں ایک دوسرے سے بزرگ تر ہے۔ کتاب خدا ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے اور میری عترت و اہلبیتؑ ہیں۔آگاہ ہوجاؤ کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کو ثر پر وارد ہوجائیں۔ مسند ابن حنبل 4 ص 54 / 1121 از ابوسعید خدری۔

174 ۔ ابوسعید خدری ۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ مرض الموت میں فرمایا تھا جب آپ حضرت علیؑ اور میمونہ پر تکیہ دیکر تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ فرمایا کہ ایہا الناس ۔ میں تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑے جارہاہوں -- اور کہہ کر خاموش ہوئے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ ثقلین کون ہیں ؟ جسے سنکر آپ کو غصہ آگیا اور چہرہ سرخ ہوگیا ۔ فرمایا کہ میں تمھیں ثقلین کے بارے میں باخبر کرنا چاہتا تھا لیکن حالات نے اجازت نہیں دی تو اب سنو ۔ ایک وہ ریسمان ہدایت ہے جس کا ایک سرا خدا سے ملتاہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے بارے میں اس اس طرح عمل کرنا ہوگا اور وہ قرآن حکیم ہے اور دوسرا ثقل میرے اہلبیتؑ ہیں۔ خدا کی قسم میں یہ بات کہہ رہاہوں اور یہ جانتاہوں کہ کفار کے اصلاب میں ایسے اشخاص موجود ہیں جن سے تم سے زیادہ امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں اور یاد رکھو خدا گواہ ہے کہ جو شخص بھی اہلبیتؑ سے محبت کرے گا پروردگار اسے روز قیامت ایک نورعطا کرے گا جس کی روشنی میں حوض کوثر پر وارد ہوگا اور جوان سے دشمنی کرے گا پروردگار اپنے اور اس کے درمیان حجاب حائل کردے گا ۔ امالی مفید ۔ر۔ 135 / 3۔

175۔ محمدؐ بن عبداللہ الشیبانی نے اپنے صحیح اسناد کے ذریعہ ثقہ سے ثقہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام مرض الموت کے دوران گھر سے باہر تشریف لائے اور مسجد کے ستون سے ٹیک لگاکر کھڑے ہوکر یہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ ایہا الناس کوئی نبی دنیا سے نہیں گیا مگر یہ کہ اس نے اپنا ترکہ چھوڑا ہے اور میں بھی تمھارے درمیان ثقلین کو چھوڑے جارہاہوں، ایک کتاب خدا ہے اور ایک میرے اہلبیتؑ ، یاد رکھو جس نے انھیں ضائع کردیا خدا اسے برباد کردیگا۔ احتجاج 1 ص 171 / 36۔

176 ۔ زید بن علیؑ نے اپنے آباء کرام کے حوالہ سے امیر المؤمنینؑ سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ کا مرض الموت سنگین ہوگیا اور آپ کا گھر اصحاب سے بھر گیا تو آپ نے فرمایا کہ حسنؑ و حسینؑ کو بلاؤ۔ میں نے دونوں کو طلب کیا اور آپ نے دونوں کو گلے لگاکر بوسہ دینا شروع کردیا یہاں تک کہ غشی طاری ہوگئی ۔ حضرت علیؑ نے دونوں کو سینہ سے اٹھالیا تو آپ نے آنکھیں کھول دیں اور فرمایا کہ انھیں رہنے دو تا کہ یہ مجھ سے سکون حاصل کریں اور میں ان سے سکون حاصل کروں۔ اس لئے کہ میرے بعد انھیں قوم کی بدنفسی کا سامنا کرناہے۔
پھر فرمایا ایہا الناس ! میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں کو چھوڑا ہے، کتاب خدا اور میری سنت و عترت و اہلبیتؑ کتاب خدا کو ضائع کرنے والا میری سنت کو برباد کرنے والا ہے اور سنت کو ضائع کرنے والا عترت کو ضائع کرنے والا ہے۔
یاد رکھو کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہانتک کہ میں حوض کوثر پر ملاقات کروں۔مسند زید ص 404۔

177۔ سعد الاسکاف ! میں نے امام ابوجعفرؑ سے اس قول رسول کے بارے میں دریافت کیا کہ میں تم میں ثقلین کو چھوڑے جارہاہوں ان سے وابستہ رہنا اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ؟ تو حضرت نے فرمایا کہ کتاب خدا بھی ہمیشہ رہے گی اور ہم میں سے ایک رہنما بھی رہے گا جو اس کی طرف رہنمائی کرتا رہے گا یہانتک کہ دونوں حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ۔ بصائر الدرجات 6 / 414۔

178 ۔ امام علیؑ نے جناب کمیل کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا ۔ کمیل ہم ثقل اصغر ہیں اور قرآن خدا ثقل اکبر ہے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ بات قوم کو بار بار سنادی ہے اور نماز جماعت کے بعد اس کا مسلسل اعلان فرمادیاہے۔ ایک دن آ پ نے سارا مجمع کے سامنے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ لوگو! میں خدا کی طرف سے یہ بات پہنچا رہاہوں اور یہ میری ذاتی بات نہیں ہے لذا جو تصدیق کرے گا وہ اللہ کیلئے کرے گا اور اسے صلہ میں جنت ملے گی اور جو تکذیب کرے گا وہ اللہ کی تکذیب کرے گا اور اس کا انجام جہنم ہوگا۔ اس کے بعد حضرت نے مجھے آواز دی اور مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا اور اپنے سینہ سے لگالیا اور حسنؑ و حسینؑ کو داہنے بائیں رکھ کر آواز دی ایہا الناس ۔ ! جبریل امین نے یہ حکم پروردگار پہنچایاہے کہ میں تمھیں یہ بتادوں کہ قرآن ثقل اکبر ثقل اصغر کی گواہی دیتاہے اور ثقل اصغر ثقل اکبر کا شاہد ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور خدا کی بارگاہ میں حاضری کے وقت تک ساتھ رہیں گے اس کے بعد وہ ان دونوں اور بندوں کے درمیان اپنا فیصلہ سنائے گا۔ ۔بشارة المصطفیٰ ص 29۔

179 ۔ عمر بن ابی سلمہ ناقل ہیں کہ امیر المؤمنینؑ نے انصار و مہاجرین کی جماعت کے سامنے ارشاد فرمایا کہ میں تم سے خدا کو گواہ کرکے دریافت کرتاہوں کہ کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے آخری خطبہ میں فرمایا میں فرمایا تھا کہ ایہا الناس ! میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتاہوں جن سے تمسک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ کتاب خدا اور میری عترت اہلبیتؑ ۔ خدائے لطیف و خبیر نے مجھے بتایاہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوجائیں ۔ لوگوں نے کہا بیشک ہمیں معلوم ہے اور حضور نے ہمارے سامنے فرمایاہے۔ کتاب سلیم بن قیس 2 ص 763۔

180 ۔ ہشام بن حسّان ۔ میں نے امام حسنؑ کو بیعت خلافت کے بعد یہ خطبہ دیتے سناہے کہ ہم اللہ کے غالب آنے والے گروہ ہیں اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی عترت واقرباہیں۔ہمیں ان کے اہلبیتؑ طیبین و طاہرین ہیں اور ثقلین کی ایک فرد ہیں جنھیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اپنی امت میں چھوڑ ا ہے اور دوسری شے کتاب خدا ہے جس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور باطل کا اس کی طرف کسی رخ سے گذر نہیں ہے۔ اس کی تفسیر میں ہم پر اعتماد کیا جانا چاہیئے کہ ہم گمان سے بات نہیں کرتے ہیں بلکہ یقین سے بات کرتے ہیں اور اس کے حقائق کا یقین رکھتے ہیں۔ امالی طوسی ۔ر۔ 121 / 188 ۔691 / 1469 ، امالی مفید ۔ر۔ 4 ص 349 ، بشارة المصطفیٰ ص 106 ، ینابیع المودة 1 ص 74 ، الاحتجاج 2 ص 94 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 67۔

181۔ثورین ابی فاختہ نے امام ابوجعفرؑ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے عمرو بن ذرالقاص سے فرمایا کہ تم ان احادیث کے بارے میں کیوں گفتگو نہیں کرتے جو تمھاری طرف ساقط ہوئی ہیں؟ ابن ذر نے کہا آپ فرمائیں ۔ فرمایا انی تارک فیکم الثقلین … میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتاہوں جن میں ایک دوسرے سے عظیم تر ہے ایک کتاب اللہ ہے اور ایک میری عترت اور اہلبیتؑ جب تک ان دونوں سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ دیکھو ابن ذر ! کل جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے ملاقات کروگے اور انھوں نے پوچھ لیا کہ ثقلین کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے تو کیا جواب دوگے؟ یہ سننا تھا کہ ابن ذر نے رونا شروع کردیا یہاں تک کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی اور کہا کہ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ اکبر کو پارہ پارہ کردیا اور اصغر کو قتل کردیا ۔ ۔ رجال کشی 2 ص 484 / 394۔

182۔ امام باقرؑ فرماتے ہیں کہ مولائے کائنات نے نہروان سے واپسی پر کوفہ میں خطبہ ارشاد فرمایا جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ آپ پر لعنت کررہاہے اور گالیان دے رہاہے اور آپ کے اصحاب کو قتل کرررہاہے تو حمد و ثنائے الہی اور صلوات و سلام کے بعد اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر قرآن مجید کا یہ حکم نہ ہوتا کہ نعمت پروردگار کو بیان کرتے رہو تو میں ا س وقت یہ خطبہ نہ دیتا لیکن اب حکم خدا کی تعمیل ہیں یہ کہہ رہاہوں کہ پروردگار تیرا شکر ہے ان نعمتوں پر جن کا شمار نہیں اور اس فضل و کرم پر جو بھلایا نہیں جاسکتاہے۔ ایہا الناس ! میں عمر کی ایک منزل تک پہنچ چکاہوں اور قریب ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں لیکن میں دیکھ رہاہوں کہ تم نے میرے معاملات کو نظر انداز کردیا ہے اور میں تمھارے درمیان انھیں دو چیزوں کو چھوڑے جارہاہوں جنھیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے چھوڑا ہے یعنی کتاب اور میری عترت اور یہی عترت ہادی راہ نجات۔ خاتم الانبیاء، سید الانبیاء اور نبی مصطفی کی بھی عترت ہے۔ معانی الاخبار 58 / 9، بشارة المصطفیٰ ص 12 ۔

183 ۔ امام علیؑ ۔ پروردگار نے ہمیں پاک اور معصوم بنایاہے اور ہمیں اپنی مخلوقات کا نگراں اور زمین کی حجت قرار دیا ہے۔ ہمیں قرآن کے ساتھ رکھاہے اور قرآن کو ہمارے ساتھ ۔ نہ ہم اس سے جدا ہوسکتے ہیں اور نہ وہ ہم سے جدا ہوسکتاہے۔ کافی 1 ص 191 ، کمال الدین 240 / 63 ، بصائر الدرجات 83 / 6 از سلیم بن قیس الہلالی



فائل اٹیچمنٹ:
حالیہ تبصرے

اس کہانی کے بارے میں تبصرے


امنیت اطلاعات و ارتباطات ناجی ممیزی امنیت Security Audits سنجش آسیب پذیری ها Vulnerability Assesment تست نفوذ Penetration Test امنیت منابع انسانی هک و نفوذ آموزش هک