پہلا خطبہ
سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر آپ سب کو تقوی الہی اپنانے کی وصیت کرتا ہو۔
میر ے آج کے خطبوں کا موضوع ہے کسب و کار حلال (حلال کی کمائی)
حضرت امام صادق علیہ السلام کے پیروکاروں میں سے ایک آدمی نے تجارت پر جانے کا قصد کیا تو اس نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مولا میں اس سفر پر جانا چاہتا ہوں حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا بھی کچھ سرمایا اپنے ساتھ لے جاؤ
اور اس سے تجارت کرو اس نے آپکی پیشکش کو قبول کیا اور امام علیہ السلام سے رخصت ہوا اور جب سفر سے واپس آیا تو اس نے امام علیہ السلام کی خدمت میں امام سے لی ہوئی رقم دو برابر پیش کی
تو امام علیہ السلام نے پوچھا کہ ان تھوڑے دنوں کے سفر میں اتنا زیادہ کیسے کمایا!؟
اس آدمی نے کہا کہ میں جب اس ملک میں گیا تو مجھے پتا چلا کہ میرے پاس جو مال ہے اس کی ان لوگوں کو اشد ضرورت ہے
تو اس لیے میں نے آپ کے مال کو دگنی قیمت میں بیچا اسی وجہ سے تھوڑے دنوں میں بہت زیادہ کمالیا تو امام علیہ السلام نے اصل سرمایہ تو لے لیا اور منافع اس کو لوٹادیا اور فرمایا کہ کبھی بھی ایک مسلمان کو اپنا مال بہت مہنگا مت بیچو کیونکہ اس وقت تو وہ مجبوری میں اور اقتصادی مشکلات کی وجہ سے مہنگا مال لے لے گا لیکن اس کی وجہ سے وہ دوسری چیزیں مہنگی کردے گا اس طرح مہنگائی بڑھ جائے گی۔
یہ آج کل کے اقتصاد کے لیئے بہت ضروری بات ہے۔
امام علیہ السلام کا اس مبلغ کو نا لینا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی چیز کو مہنگا بیچنا اھلبیت کے نزدیک پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
یہاں میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا چلوں کہ بہت سارے لوگ تجارت کے احکام سے آگاہ نہیں ہیں
اور اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ لوگ چاہتے بھی نہیں ہیں کہ ان احکام سے باخبر ہو جائیں اسی وجہ سے امام موسی کاظم علیہ السلام نے تجارت کی باب میں ہمیں چار وصیتیں کی ہیں۔
اول: کسب حلال
جو کچھ بھی انسان کمانا چاہتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ حلال ذریع سے کمائے۔ اسلام میں اس بات کی تو کوئی حد نہیں ہے کہ انسان کتنا کما سکتا ہے بلکہ جتنا چاہے وہ کما سکتا ہے
اس بارے میں قرآن مجید میں بھی بہت ساری آیات موجود ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں حلال رزق کمانا بہت عظیم مقام رکھتا ہیں۔ اللہ تعالی نے سورہ مبارکہ مومنون میں فرمایا ہے کہ میں نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں سے کہا: ( یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات۔
اے میرے پیغمبروں حلال میں سے کھا لو
قرآن کی واضح آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حرام کمانا جہنم کی دروازے کو اپنے اوپر کھولنے کے برابر ہے اللہ تعالی نےقرآن کریم سورہ نساء آيت نمبر 10 میں ارشاد فرمایا:
) الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارا۔ (
وہ لوگ کہ جو یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھا لیتے ہیں وہ لوگ حقیقتاً اپنےپیٹ میں آگ بھر رہے ہیں.
پس جو بھی حرام کی طرف جاتا ہے وہ اپنے آپ کو عذاب قیامت اور جہنم کا حقدار بنا لیتا ہے مگر یہ کہ اللہ تعالی کسی کو توفیق دے کہ وہ حرام سے کمائی ہوئی دولت واپس لوٹا دے
دوم: مال اور دولت میں بخل سے پرہیز کرنا
ہمیں اس بات کی ہدایت کی گئی ہے کہ حلال کی کمائی ہوئی دولت میں بخل جیسی بری چیز سے اجتناب کریں ورنہ بخل بھی جہنم کا دروازہ اپنے اوپر کھولنے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور پھر اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ان جیسے افراد کو جہنم کی خبر دے دو
یہ دوسری نصیحت ہے کہ حلال کماؤ اور جتنا چاہے کماؤ لیکن پھر اس مال میں بخل سے کام مت لو۔
سوم: دولت کو صحیح جگہ پر خرچ کرنا
تیسری نصیحت یہ ہے کہ جو پیسے آپ کے ہاتھ آئے ہیں سب سے پہلے اس سے اپنے گھر والوں کے ليئے سہولت فراہم کریں ورنہ اس پیسے کو صرف اکٹھا کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے گھر پھر سواری اور پہننے کے لئے کپڑے اور خوراک جو آپ کے شان کے مطابق فراہم کریں، کیونکہ یہ چار ہماری زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔
سواری سے مراد آج کل کے زمانے میں گاڑی ہے
لیکن ہمیں بہت مہنگی گاڑی لینے کی ضرورت نہیں ہے ہم جب پیدا ہوئے تو ہمیں ایک گہوارے میں رکھا گیا اور آخر میں ایک تابوت میں رکھیں گے یہ دو سواریاں ہماری قدرت میں نہیں ہے
لیکن ایک ایسی سواری کہ جو اب ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکے خرید لیں۔
جب آپ نے اپنے لئے یہ چیزیں فراہم کرلیں، پھر اس کے بعد آپ کے رشتہ داروں کی باری ہے، اگر ان کے ہاں کسی چیز کی ضرورت ہو اور آپ کے پاس پیسے آپکی ضرورت سے زیادہ ہوں تو ان کی وہ ضرورت پوری کریں۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ( و اتی المال علی حبہ ذوی القربی)
اور محبت خدا میں اپنے قرابتداروں کو اپنے مال میں سے دے۔
اس میں سب سے پہلی باری باپ، ماں، بہن، بھائی، چچا اور پھوپھی کی ہے لیکن اگر اس سے بھی زیادہ ہوا تو پھر ( والیتامی والمساکین وابن السبیل و السائیلن ) یتیموں، مسکینوں، بے گھر لوگوں اور فقیروں کے لیے ہے لیکن اگر آپ کا مال اتنا زیادہ نہ ہو تو پھر یہ آپ کے لئے ہے۔
چہارم: مال اور دولت کو گناہ میں خرچ نہیں کرنا
دولت کے بارے میں چوتھا نکتہ یہ ہے کہ اپنے مال کو گناہ میں خرچ نہ کرنا۔
قیامت کے دن اللہ تعالی ان لوگوں سے بہت سخت حساب لے گا کہ جنہوں نے اس دولت کو حرام اور گناہ کی چیزوں میں خرچ کیا ہو۔
لیکن اگر ہم اس دولت کو اچھے راستے میں خرچ کریں تو اسکے ذریعہ ہم اللہ کی رحمت ، مغفرت اور بہشت تک پہنچ سکتے ہیں ۔ کہ جہاں پر کہا گیا ہے ( اولئک علیھم صلوات من ربھم۔) ان لوگوں پر اللہ کی طرف سے درود اور سلام ہے۔
اور دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا ( ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنہ) ۔ اللہ تعالی نے مومنین سے ان کی جان اور مال کو جنت کے بدلے خریدلیا ہے۔
جس مال سے ہم اللہ کی رضا خرید سکتے ہوں کیوں اس کو حرام اور ناجائز چیزوں میں خرچ کریں؟
شاید کوئی پوچھے کہ میں ان چار چیزوں پر عمل کرتا ہوں اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ دو چیزیں اور بھی یاد رکھے
ایک: یہ کہ جو اپنے مال سے خمس نہ نکالے وہ بھی قیامت کے دن اللہ کی گرفت میں ہوگا
دوسرا: اگر کسی کے ساتھ نیکی اور احسان کیا تو اس پر احسان مت جتاؤ۔
بس اگر اس طرح کسی نے ان سب نصیحتوں پر عمل کیا تو وہ کامیاب اور کامران ہوگا۔
فائل اٹیچمنٹ: