بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
میں آپ کو اور آپ سب مومنین کو تقویٰ پرہیز گاری اور پابندی سے دین اور احکام دین پر عمل کرنے کی سفارش کرتا ہوں،
تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کو خدا اور اپنے اہل بیت علیہم السلام کی رضا کے مطابق انجام دے، آسان الفاظ میں تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر اس چیز پر عمل کریں جو ہم نے دین کے بارے میں سیکھا ہے۔
آپ حضرات نے آیت اللہ بہجت کا نام ضرور سنا ہوگا اور آپ انہیں جانتے بھی ہیں، آیت اللہ بہجت وہ تھے جن کے بارے میں امام خمینی نے اپنی بیان میں وضاحت کے ساتھ فرمایا:
کہ جناب بہجت صاحب روحانی اعتبار سے بہت عظیم مقام پر فائز ہے۔
یا امام علی خامنہ ای اعلیٰ اللہ مقامہ، خدا ان کی حفاظت فرمائے، نے آیت اللہ بہجت کے بارے میں فرمایا:
جناب بہجت اخلاق اور عرفان کے عظیم استاد تھے اور وہ لامتناہی روحانی برکات کا منبع تصور کیے جاتے تھے، یعنی آیت اللہ بہجت کے وجود میں ایسی روحانیت تھی کہ جسکا انتہا نہیں تھا۔
توجھ رکھیں کہ ایسی شخصیت جب کوئی وصیت یا نصیحت کرتا ہے تو وہ ضرور کوئی قیمتی نصیحت ہوگا۔
آیت اللہ بہجت ایک اچھے اخلاق کے بارے میں ایک نصیحت کو بہت دہرایا کرتے تھے: جب کوئی بھی ان سے پوچھا کرتے تھے
کہ جناب ہمیں خدا کا قرب حاصل کرنے اور اپنی روحانیت کو ترقی دینے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
تو آیت اللہ بہجت عام طور پر ایک ہی جواب دیا کرتے تھے: فرماتے تھے: جاؤ اور ہر اس چیز پر عمل کرو جو تم نے دین میں سیکھا ہے۔
تا کہ تم خدا کا قرب حاصل کرو اور روحانی طور پر ترقی کرو.
تقویٰ کا مطلب یہی ہے.
تقویٰ کا مطلب ہے کہ ہر اس چیز پر عمل کرنا جو ہم نے مذہب سے سیکھا ہے.
ہم جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا حرام ہے.
ہمیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے،
ہم جانتے ہیں کہ غیبت کرنا حرام ہے .
ہمیں غیبت نہیں کرنا چاہیے،
ہم جانتے ہیں کہ حرام تصاویر، حرام سے برے ہوئےفلمیں دیکھنا حرام ہے، تو ہمیں نہیں دیکھنا چاہئے۔
اور اسی طرح نا محرم کو دیکھنا حرام ہے تو ہمیں اپنی نگاہوں پر قابو رکھنا چاہیے۔
عورتیں جانتی ہیں کہ غیر محرم کے سامنے میک اپ کرنا حرام ہے، حجاب کرنا ضروری ہے ،
تو انہیں عمل کرنا چاہئے۔
اسکا مطلب تقوی ہے۔
اگر ہماری زندگی میں سکون نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مذہبی احکام اور جو کچھ دین کے بارے میں علم ہے اس پر عمل نہیں کرتے، یہ بہت بڑی آفت ہے. تو گناہ ہمارے رزق میں کمی کا باعث بنتی ہے. اس سےہماری پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں.
ذہنی دباؤ ہمیں اور پریشان کر دیتا ہے اور ہمیں پرسکون نہیں ہونے دیتا ہے۔ یہ ہے ہمارے مذہب کی تنبیہ جو کہتی ہے: گناہ پریشانیوں کو بڑھاتا ہے، آفات کو بڑھاتا ہے، رزق میں کمی لاتا ہے، گناہ انسان کی عمر کم کر دیتا ہے...
وہ عظیم شیعہ عالم آیت اللہ حق شناس کہتے تھے: گناہ تمہاری عمر کم کر دیتا ہے، اس لیے نجات کا راستہ تقویٰ پر عمل کرنا ہے، روحانیت اور الٰہی سکون حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں دین کے بارے میں معلوم ہے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص اس پر عمل کرے جو وہ دین کے بارے میں جانتا ہے توخدا اس عالم کو اسکے لیے ایک استاد جیسا بنا دے گا تاکہ وہ اسے وہ سب کچھ سکھائے جو وہ مذہب کے بارے میں نہیں جانتا ہو،
یعنی جب ہم ہر اس شئے پر عمل کریں گے جو ہمیں اپنے مذہب نے سکھایا ہے، تو خدا وند کریم ہمں اور وہ چیز جو ہم نہیں جانتے ہوں گے، کی سیکھنے کا ذریعہ فراہم کرے گا اور اس طرح سے ہم اللہ کی قربت حاصل کریں گے اور روحانی اعتبارے سے ترقی کر پائے گے۔
ان شاء اللہ آج سے ہم اپنے دینی معلومات پر عمل کرنے کا فیصلہ کریں، تاکہ ہماری زندگیاں اہل بیت کے نور سے منور ہو جائیں
میں مناسب سمجھتا ہو کہ میں ان تمام مومنین اور نماز گزاران کا شکریہ اداء کرو کہ جوتما م مذھبی پروگرامات اور محافل میں شرکت کرتے ہیں۔ اپنے کام اور کاج کو چھوڑ کر عیدالفطر کی نماز میں شریک ہو تے ہیں ، اعمال عرفہ میں شرکت کرتے ہیں، شمع غم امام باقر علیہ السلام اور امام جواد علیہ السلام کو روشن کرتے ہیں اور عظیم ماتمی اجتماع میں شرکت کرتے ہیں ۔
خدا سب کو سلامت رکھے. اور اللہ سب سے قبول فرمائیں۔
لیکن عزیزوں، ان تقریبات کا ایک اہم ترین فلسفہ اہل بیت جیسا رنگ اختیار کرنا ہے،
ہمارے اہل بیت کبھی بھی دوسروں کی دکھ اور درد سے بے نیاز نہیں تھے۔
اس شہر میں ایسے شیعہ بھی ہیں جنہیں رات کے کھانے کے لیے ایک روٹی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
یا ان کے پاس اپنے بچوں کو سکول میں رجسٹر کروانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے ہیں... یا ان میں سے کچھ کے پاس سے کسی بھی وجہ سے پیسے ضائع ہو گئے اور اب وہ استطاعت نہیں رکھتے۔ اور ان میں سے بعض عزت نفس کی وجہ سے دوسرے کو بتانے کو تیار نہیں ہوتے۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اگر ہوسکے تو ان لوگوں تک پہنچیں اور ضرورت مندوں کی حتی الامکان مدد کریں.
وہی اہل بیت جن کے لیے ہم ماتم کررہے ہیں، وہی امام جوادی جن کی وفات پر چند دن پہلے سوگ منایا اور خیمہ غم لگا لیا ، کے بارے میں ملتا ہے۔
کہ امام جواد علیہ السلام اپنی جوانی سے ہی اپنی سخاوت اور کرم اور بخشش کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ کہتے ہے کہ حضرت کے گھر کے دروازے پر اتنے لوگ مدد لینے کیلے آیا کرتے تھے اور امام جواد علیہ السلام کے گھر کے دروازے پر ضرورت مندوں کا اجتماع اس قدر بڑھ جاتا تھا کہ آپ کے قریبی ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ امام جواد علیہ السلام کو مشورہ دے کہ وہ گھر کے پیچھے والے دروازے سے زیادہ تر آنا جانا رکھے تا کہ ہر وقت لوگوں کی اس بیھڑ سے روبرو نہ ہو۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب امام رضا علیہ السلام خراسان میں موجود تھے، جب امام رضا علیہ السلام کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے امام جواد کو خط لکھا اور انہیں نصیحت کی کہ ان لوگوں کی باتوں پر کان نہ دیں جو کہتے ہیں کہ مرکزی دروازے سے آنا اور جانا نہ کریں ، بلکہ مرکزی دروازے کے ذریعے ہی جاؤ. اور جب بھی گھر سے نکلنا ہو تو کچھ سونا چاندی ساتھ لے جایا کرو اور اگر کوئی ضرورت مند تمہارے پاس آئے تو اسے خالی ہاتھ مت پلٹا دینا...
معصومین علیہم السلام آپ حضرات اور ہم سب سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔
تو آئیے معلوم کریں کہ اگر ہمارے ارد گرد کوئی ضرورتمند ہو تو اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کریں، اور یقین رکھیں کہ اللہ کئی بار اس کی تلافی کرے گا، یہ اللہ کا وعدہ ہے، جس نے قرآن میں کہا ہے کہ میں اس کی گئی گنا زیادہ دے دونگا۔ "
دوسرا خطبہ۔
ان شاء اللہ ہم سب روز بروز خدائے بزرگ و برتر کا قرب حاصل کر سکیں گے اور ان نورانی مجالس عزاداری، اور دعاؤں میں شامل ہو جائیں گے۔ جمعہ اور باجماعت نمازوں میں شرکت یقینی بنائیں گے۔
اس خطبہ میں موجودہ ہفتہ کے واقعات اور مناسبات کے بارے میں تذکرہ کرنا چاہوں گا:
اتوار کواس عظیم اور چھوتے شہید محراب اور مرد مجاہد شہید آیت اللہ صدوقی کی چوتھی برسی ہے۔
امام خمینی (رح) نے اس حوالے سے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا: میں نے ایک عزیز دوست کو کھو دیا ہے جسے میں 30 سال سے زیادہ سے اس عظیم ھستی کو قریب سے جانتا تھا، اس کے جانے سے ایران اور اسلام ایک پرعزم اور عظیم خدمت گزار سے محروم ہو گئے ہیں ۔
اور صوبہ یزد ایک علمی سرپرست سے محروم ہو گیا ہے ۔
رہبر معظم نے آپ کے بارے میں یہ بھی فرمایا: "وہ امام کے مطیع اور فرمانبردار تھے، اور انہوں نے امام کی رائے اور افکار پر کسی رائے اور فکر کو ترجیح نہیں دی تھی۔" یہی وجہ تھی کہ انقلاب کے آغاز سے لے کر آخر تک ان کا موقف سو فیصد درست رہا تھا۔
پیر کے دن کو، ہم علامہ امینی کی یاد منائیں گے ، جو قابل قدر کتاب الغدیر کے مالک ہیں۔علامہ امینی نے اپنی زندگی کے 50 سال کتاب الغدیر لکھنے میں گزاری۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الغدیر کی کتاب کو اس عظیم شخصیت کی نصف صدی کی زندگی کا ثمر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس عالم کے زبان سے ایک بات نقل ہوئی ہے جس میں آپ نے فرمایا: جس نے صلوات کے بعد "و عجل فرجھم" کہا، میں اس کو کتاب الغدیر لکھنے کا ثواب ھدیہ کرونگا۔
الغدیر کتاب کے مصنف جناب حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد ہادی امینی کی ایک انوکھی خواہش، علامہ امینی کے صاحبزادے فرماتے ہیں: میرے والد کی زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ آپ کے دل میں کیا خواہش ہے؟ اس نے جواب دیا: اس دنیا میں میری ایک ہی خواہش ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا مجھے لمبی عمر دے اور اگر ایسا ممکن ہو جائے تو اس دوران میں میں سب سے دور رہوں گا اور صحرا کے ایک کونے میں خیمہ لگاؤں گا اور وہیں رہوں گا اور تاریکی میں بیٹھ کر باقی زندگی علی علیہ السلام کی مظلومیت پر روتے ہوئے گزارونگا۔ ، اے میرے عزیزوں ، امیر المومنین کی عدم موجودگی پر رونا چاہیے، یہی کافی ہے کہ عیسائی جارج جردق کہتا ہے کہ میں نے نہج البلاغہ کو دو سو مرتبہ پڑھا اور ہر بار کچھ نیا سیکھا ہے ۔ لیکن بہت سے شیعوں نے کبھی اس عظیم کتاب کو ٹھیک سے نہیں پڑھا ہوگا۔
منگل کو امام ہادی علیہ السلام کا یوم پیدائش ہے۔ پیارے دوستو، ہم امام ہادی علیہ السلام سے نقل شدہ زیارت جامعہ کو ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور پڑھیں۔
اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ نجف میں پندرہ سال تک امام خمینی باقاعدگی سے ہر رات ایک مقررہ وقت پر مولائ متقیان حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی قبر پر تشریف لے جاتے تھے اور اس عظیم زیارت جامعہ کو پڑھتے تھے ۔
(ماسوائے ان راتوں کے جب وہ زیارت کے لیے کربلا میں جاتے کرتے تھے۔) (یا وہ شدید بیمار تھے)
ہمارے اور معزز علماء نے بھی اس زیارت کو پڑھنے کی تلقین کی ہیں، خاص طور پر حضرت آیت اللہ قاضی بہت تاکید اور تلقین کی ہے ، اس عظیم شیعہ عالم جو امام زمانہ علیہ السلام سے اکثر رابطے میں رہا کرتے تھے، نےزیارت جامعہ پڑھنے کی نصیحت اور تاکید کی ہے کہ زیارت جامعہ کو نہ چھوڑنا۔ اہم بات یہ ہے کہ حضرت آیت اللہ مظاہری جو شیعہ علماء میں تقویٰ اور اخلاق کے اعتبار سے نمونے کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے سفارش کی کہ آپ ہفتے میں کم از کم ایک بار زیارت جامعہ پڑھنے کی پابند رہیں۔
اگلا جمعہ: عید اکبر
عید غدیر کا دن ہے یہ وہ دن ہے جب خدا کے بندوں کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، یہ بہت اہم ہے کہ امام صادق علیہ السلام اس دن میں گناہوں کی معافی اور بخشش کے بارے میں فرماتے ہیں: عید غدیر وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا جہنم سے معاف کرنے والون کی تعداد کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جہنم کی آگ سے رہائی پانے والے لوگوں اور اسی طرح شب قدر اور عید الفطر کی رات کو جہنم کی آگ سے نجات پانے والے لوگوں کے مقابل میں دوگنی تعداد میں معاف کر دیتا ہے۔
اور انسان کے ساٹھ سال کی گناہیں معاف کیے جاتےہے۔ (بہار جلد 94، صفحہ 119)
انسان اس عید کو اپنے گھر والوں کے ساتھ منائے اور اگر ہو سکے تو مٹھائیاں تقسیم کریں اور اپنے بچوں کو عیدی دیں.
اس دن کو اپنے بچوں کے لیے خوشگوار بنانے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
ایک مفید اور پرکشش پروگرام کے ساتھ منائے، تاکہ اس مبارک جشن کی اچھی یاد ان کے ذہنوں میں رہے، غدیر کو کھانا کھلانا بہت ضروری ہے، اس لیے میں آپ کے لیے چند احادیث پڑھوں گا: ○امام صادق علیہ السلام نے فرمایا۔ : عید غدیر کے دن مومن کو کھانا کھلانے کا ثواب دس لاکھ انبیاء و اولیاء کو کھانا کھلانا کے برابر ہے۔ ( کہ میں ان کے سردار خود اہلبیت بھی ہیں)، اور دس لاکھ شہداء کو کھلانے کے برابر ہے (ان کے سر دار حضرت عباس اور شہدائ کربلا ہیں۔) اور دس لاکھ صالحین کو کھانا کہلانے کے برابر ہے ۔ (بہار، جلد 6، صفحہ 303)
ایک اور جگہ فرمایا: اس دن ایک شخص کو کھانا کھلانا تمام انبیاء و اولیاء کو کھانا کھلانے کے مترادف ہے۔ (مفتیح الجنان ص 500)
چنانچہ امام صادق علیہ السلام نے اس دن کو کھانا کھلانے کا دن قرار دیا۔ (بہار، جلد 95، ص 323) اس کےضمن میں بہت سی اہم احادیث موجود ہیں، اور میں آپ کو اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ عید غدیر کے کھانا کھلانے جتنا اور کسی موقع پر کھانا دینے کی کوئی سفارش نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے اگر ہم عید کے موقع پر مہمانوں کو مدعو کر کے ان کو کھانا نہیں دے سکتے ہیں تو کم سے کم ایک پارسل کھانا انکے لیے بہیج سکتے ہیں اگر یہ بھی ممکن نہیں ہو تو ہم غدیر کے دن کھانا کھلانے والوں کے ساتھ تھوڑا سا پیسے ڈال کر شامل ہو جائیں۔ .
یقین جانو اللہ قبول کرے گا.
خدایا ظہور امام زمان علیہ السلام میں تعجیل فرما۔
خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا۔
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
فائل اٹیچمنٹ: