بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین احمدہ علی عواطف کرمه ، سوابغ نعمه حمدا لا منتہی لحمدہ ، و لا حساب لعددہ، و لامبلغ لغایتہ ، و لاانقطاع لامرہ و الصلاہ و السلام علی آمین وحیہ ، خاتم رسلہ و بشیر رحمتہ ، و نذیر نعمتہ سیدنا و نبینا محمد و علی آلہ الطیبین الطاہرین ، صحبہ المنتجبین و الصلاہ علی آئمہ المسلمین سیما بقیتہ اللہ فی الارضین ،
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و اتباع امرہ۔
محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔
قلت وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے چند مطالب آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
یہ وہ آیام ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے 30 دن کی ملاقات کاوعدہ کیا تها. جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد گرامی ہے
وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ
اور ہم نے حضرت موسیٰ سے 30 دن کی ملاقات کا وعدہ لیا اور پھر ہم نے اس میں دس دن کا اضافہ کر کے 40 دن کے ساتھ مکمل کیا
وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
حضرت موسی علیہ السلام نے کہا کہ اے خدا میری قوم میں میرے بھائی ہارون کو میرا خلیفہ بنا دے. تو قرآن نے اس طرح فرمایا کہ حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میرا خلیفہ بنوں اور ان کی اصلاح کرو
اور کبھی بھی فساد پھیلانے والوں کی راستے پر مت جاؤ مطلب یہ کہ فساد پھیلانے والے اور اللہ کی دشمنوں کی پیروی مت کرو
لیکن جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کے ساتھ ملاقات کے لئے سب ملا کر چالیس دن کے لیے گیا تو اس کے قوم نے بغاوت کی اور بہت کم دنوں میں موسی علیہ السلام کی لائے گئے دین کو چھوڑ کر ایک بچھڑے کی عبادت کرنا شروع کی
حضرت ہارون علیہ السلام ان کو منع کرتے رہے لیکن لوگوں نے حضرت موسی علیہ السلام کی جانشین کی پیروی نہیں کی اور گمراہی کی راستے پر چل پڑے
ہمیں اس واقعے سے عبرت لینی چاہیے
اللہ تعالی نے ہمیں 30 دن کے لیے اپنا خاص مہمان بنایا اور پھر عید الفطر پر اس کا جزا ءبھی دے دیا اب جیسا حضرت موسی علیہ السلام نے چالیس دن کی ملاقات کا بہترین فائدہ اٹھایا تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ہر سال کی اس تیس دن کی خاص ملاقات اور مہمانوازی سے بہترین فائدہ اٹھائے یہ بہت اچھے ایام ہے اور ہمیں ان ایام میں جو فرصت ملا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے
تاکہ جو ہمارا دل ماہ مبارک میں نورانی ہو چکا تھا اس کی نورانیت کو محفوظ رکھ سکے
وہ چیزیں کہ جس کی وجہ سے دل نورانی رہتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان حلال کمائیں اور حلال کھائیں اسی طرح ماہ رمضان کی ایام سے عبرت لیتے ہوئے پر خوری سے اجتناب کریں
صاحبان عقل اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں قرآن کریم نے فرمایا
مَا يَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
صاحبان عقل لوگوں کے علاوہ اور لوگ اس کو یاد نہیں رکھتے
یاد رکھیے کہ غیبت کی زمانے میں ایک مشکل کام یہ ہے کہ انسان حلال کمائیں اور حلال کھائیں
اسی وجہ سے قرآن کریم نے ہمیں اپنے کھانے پر توجہ کرنے کی ترغیب دی ہے فرماتے ہیں کہ:فالینظر الانسان الی طعامه
انسان اپنے کھانے کی طرف دیکھیں مطلب یہ کہ متوجہ رہے کہ یہ کھانا کیسا ہے اور کس طرح حاصل کیا گیا ہے
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے
: مَن أکَلَ مِنَ الحَلالِ صَفا قَلبُهُ ورَقَّ
جو حلال کھاتا ہے اس کا دل پاک اور پاکیزہ ہو کر نرم ہو جاتا ہے
اسی طرح دوسری حدیث میں فرمایا
مَن أکَلَ الحَلالَ أربَعينَ يَوما ، نَوَّرَ اللّه ُ قَلبَهُ ، وأَجرى يَنابيعَ الحِکمَةِ مِن قَلبِهِ عَلى لِسانِهِ هر
جو چالیس دن تک حلال کھائیں تو اللہ تعالی اس کے دل کو نورانی بنا دیتا ہے اور اس کے دل سے حکمت کی چشمیں اس کی زبان پر جاری کرتا ہے
اسی طرح دوسری جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: إذا أقَلَّ الرَّجُلُ الطُّعمَ مُلِئَ جَوفُهُ نورا
جب انسان کم کھاتا ہے تو اس کا اندر (دل) نور سے بھر جاتا ہے
اسی طرح فرماتے ہیں کہ
نورُ الحِکمَةِ الجوعُ حکمت ملنے کا رازبھوکا رہنے میں ہے اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ روزہ رکھنا اور پھر اسی پر پورا سال قائم رہنا مطلب پورا سال روزہ رکھنا یا سال میں اکثر دنوں میں روزہ رکھنا اگر یہ ہم ہر مہینے جاری رکھے تو اس سے ہمارا معرفت شہودی بڑھ جائے گا
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :الصَّومُ يورِثُ الحِکمَةَ ، وَالحِکمَةُ تورِثُ المَعرِفَةَ ، وَالمَعرِفَةُ تورِثُ اليَقينَ
روزے کے ذریعے انسان کو حکمت ملتا ہے اور حکمت سے انسان کو معرفت ملتا ہے اور معرفت سے انسان کو یقین ملتا ہے اور یقین معرفت کا اعلی درجہ ہے کہ جس کو معرفت شهودى بھی کہا جاتا ہے
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم حکمت پر فائز ہو جائیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ہر کام میں اللہ والا ہونے کی نیت کو اجاگر کرے کہ جس کی وجہ سے ہمارا دل نورانی ہو جائے گا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اباذر کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: يا أَبا ذَرٍّ لِيَکُن لَکَ في کُلِّ شَيءٍ نِيَّةٌ صالِحَةٌ ، حَتَّى فِي النَّومِ وَالأَکلِ
اے اباذر آپ کو چاہیے کہ ہر کام میں آپ کی نیت اللہ سے باندھا ہوا ہوں یہاں تک کہ سونے میں اور کھانے میں بھی اللہ کی نیت کو شامل کر لو مطلب یہ کہ جیسا آپ کہتے ہوں کہ میں سوتا ہوں اس لیے کہ اللہ تعالی نے میرا بدن جو مجھے امانت کے طور پر دیا ہے اس کو آرام دوں تاکہ پھر اس کے ساتھ اللہ کی عبادت بہترین طریقہ سے کر سکوں
اسی طرح کھانے میں بھی اللہ کی نیت کو شامل کر لے
ایک حدیث امام سجاد علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے کہ: " «ابن ادم لا تزال بخير ما کان لک واعظ من نفسک»؛"
اے ابن آدم! آپ تب تک خیر پر نہیں ہو سکتے ہے کہ جب تک آپ دو کام نہ کریں: پہلا: کہ جب تک اپنے اندر سے ایک مبلغ پیدا نہ کریں۔ آپ کو چاہتے کہ آپ کے اندر سے کوئی ایسی طاقت ہو کہ جو آپ کو آچھا مشورہ دے چاہئے وہ آپ کا دل ہو، آپ کی عقل ہو، آپ کا ضمیر ہو، آپ کا ایمان ہو تا کہ وہ آپ کو نصیحت اور تبلیغ کرتے رہے۔ " « و ما کانت المحاسبة من همّک»؛ دوسرا: اور جب تک آپ اپنے آپ کو محاسبہ کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہو۔ آئیے اپنے آپ پر توجہ دے۔
ایک شخص کے لیے اپنے خود کاحساب اور محاسبہ کرنا دوسروں کو محابہ کرنے سے زیادہ بہتر اور آسان ہے۔ کیونکہ انسان اپنے آپ سے کوئی چیز چھپا نہیں سکتا۔
دوسرا خطبہ
اس خطبے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کچھ عظیم نصیحتیں بیان کرتے ہیں کہ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام علی علیہ السلام کو کیے تھیں۔
امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہم السلام نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: اے علی، تمہارا مقام اور منزلت میرے پاس وہی ہے کہ جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے پاس تھا۔ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے،
آج میں تمہیں کچھ وصیتیں کرنا چاہتا ہو کہ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو بہترین زندگی جیوگے اور شہید ہو کر اس دنیا سے رحلت کرو گے،
اور اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن عالم اور فقیہ اٹھائے گا۔
اے علی اگر تم صدقہ کرو تو جو کچھ تمہارے پاس ہے اس میں سے بہتر سے صدقہ کرو کیونکہ حلال کے ایک لقمے کا صدقہ اللہ کے نزدیک حرام کی سو مثقال صدقے سے زیادہ محبوب ہے اسی طرح اس ان سو مثقالوں سے بھی بہتر ہے جو آپ اپنےوفات کے بعد صدقے کے لیے مقرر کروگے ۔
کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا : کہ قیامت کے دن بندہ ان سب کچھ کی طرف دیکھے گا کہ جو اس نے اپنے لیے موت سے پہلے بھیجا ہو۔
اے علی اپنے اموات اور مرحومین کے لیے صدقہ دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرشتوں کو مقرر کیا ہے کہ وہ زندوں کا صدقہ ان تک لے جائیں، اور اس پروہ لوگ اس دنیا سے زیادہ خوش ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں: اے اللہ، ہماری قبروں کو روشن کرنے والے کو بخش دے، اور اسے جنت کی بشارت دے جیسا کہ انہوں نے ہمیں بشارت دی اور ہمیں خوش کیا۔ اے علی جو بہت گناہ کرے گا اس کی شان و شوکت ختم ہو جائے گی۔ اے علی تم سچ بولو، امانت کی حفاظت کرو، سخی النفس بنو اور اپنے پیٹ اور بطن کو پاک رکھو۔
اے علی، توبہ کرنے والوں کی توبہ اس وقت تک قبول نہیں ہوتی کہ جب تک وہ اپنے پیٹ کو حرام سے پاک کر کے حلال سے دھو نہ لے۔
اے علی، اصل میں تقویٰ یہ ہے کہ انسان حرام چیزوں کو ترک کریں اور ان سب چیزوں سے دور رہے کہ جن چیزوں کو خدا نے حرام کیےہے، آچھائی اور سخاوت کی ابتداء گناہ کو ترک کرنا ہے۔
اے علی، اچھے اخلاق انسان کو روزے دار کا درجہ دیتا ہے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے والوں کی درجے سے نوازتا ہے۔
اے علی خوش مزاج بنو کیونکہ خُدا خوش مزاج لوگوں سے محبت کرتا ہے، اور بد مزاج اور عبوس چہروں سے نفرت کرتا ہے۔ اے علی جس کو خدا عنایت کریں تو اسکو شکر گزار ہونا چاہئے اور جب اس کوآزمائش میں ڈال دے تو انکو صبر کرنا چاہئے۔
اور اگر اس سے خطا ہو جائے تو استغفار کرنا چاہئے تو ایسا آدمی جنت کی جس دروازے سے چاہے داخل ہو گا۔
اے علی، کوئی ایسا نیا دن نہیں آیا کہ جس میں نہ کہا گیا ہو: کہ اے ابن آدم، یہ ایک نیا دن ہے، اور یہ تمہارے اعمال پر گواہی دےگا تو تم دیکھو کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے ۔
تو ہم سب کو چاہئے کہ ان دنوں سے فائدہ اٹھا ئیں۔
یہ وہ آیام ہیں کہ جنکو اربعین الکلمیہ کہا جاتا ہے،
مطلب وہ چالیس دن کہ جس میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات کیا تھا کہ جسکا ذکر قرآن میں موجود ہےکہ حضرت موسی علیہ السلام کو تیس دن کی ملاقات کے لیے بلایا گیااور پھر اس ملاقات میں توسیع کی گئی اور دس دن بڑھا کر چالیس دن کا کر لیا گیا۔
اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں۔
خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام مہدی عجل الله فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔
دعا کرتے ہیں کہ ہم سبھی کو مکتبہ قرآن اور چھاردہ معصومین علیہم السلام میں سے قرار دے۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ
وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ
وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ
وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
فائل اٹیچمنٹ: